نئی دہلی:24/(آئی این این) اپوزیشن کے اعتراض، احتجاج اور واک آوٹ کے باوجود مودی سرکار نے دہشت گردی مخالف قانون، یو اے پی اے میں بدھ کو کئی متنازع ترمیمات کو منظوری دیدی۔ راجیہ سبھا میں بھی یو اے پی ترمیمی بل اگر منظور ہوگیاتو نہ صرف یہ کہ تنظیموں کی طرح ملک کے کسی بھی شہری کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جاسکے گی بلکہ این آئی اے کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی ریاست میں مقامی پولیس انتظامیہ کو اطلاع کئے بغیر جانچ پڑتال اور گرفتاریاں کرے۔ اپوزیشن نے اس قانون کو ظالمانہ اور ملک کے وفاقی ڈھانچے کے منافی قرار دیاہے جبکہ جی جے پی نے اس کا پُرزور انداز میں دفاع کیاہے۔
وزیرداخلہ امیت شاہ کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے میں افراد کو”دہشت گرد“ قرار دینے کی اہمیت بہت بنیادی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیاقانون میں مجوزہ تبدیلیوں کے بعد سیکوریٹی ایجنسیاں دہشت گردوں سے چار قدم آگے رہیں گی۔ نئے قانون کی رو سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کی طرح دہشت گرد قرار دیئے گئے افراد کی املاک بھی ضبط کی جاسکیں گی۔ بل کا دفاع کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہاکہ اس قانون کا کسی کے خلاف غلط استعمال نہیں ہوگا مگر ملک کی سلامتی اور خودمختار ی کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد جن میں اربن نکسل بھی شامل ہیں، کو تفتیشی ایجنسیاں بخشیں گی نہیں۔ انہوں نے حکومت کو افراد کو دہشت گرد قرار دینے کا اختیار دیئے جانے کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ یہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق ہے۔ اس کو فلسیانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے شاہ نے کہاکہ”تنظیم نہیں بلکہ انسان کی ذہنیت دہشت گردی کی جائے پیدائش ہے“۔وزیرداخلہ نے قانون میں تبدیلی کے تعلق سے حکومت کی منشا کو واضح کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر پہلے میں ایسے افراد کو ہی روک دیاجاتاہے اور وہ دوسرے لوگوں کو نظریاتی اور مالی مدد فراہم کرکے دہشت گردی کی طرف مائل نہیں کرپاتے تو اس عفریت کو ہی ختم کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے قانونی مرحل سے گزر تے ہوئے کسی شخص کو دہشت گرد قرار دینا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اپوزیشن کے اعتراض اور بائیکاٹ کو ووٹ بینک کی سیاست کا نتیجہ قراردیتے ہوئے امیت شاہ نے کہاکہ ”ہم جو کرسکتے ہیں کریں گے، آپ لوگ کارروائی کا بائیکاٹ اس لیے کررہے ہیں کیوں کہ آپ اپنے ووٹ بینک کے لیے برہم ہیں“۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی اور ٹی ایم سی کی رکن پالیمنٹ مہواموترا تبدیلیوں کے خلاف پوری شدت سے آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ اویسی نے اس بل کو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بل قرار دیا۔ واضح رہے کہ عوامی سطح پر بھی یہ اندیشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ قانون کو سخت کرکے اس کا استعمال اقلیتوں کے خلاف کیاجاسکتا ہے۔ ایسے کئی معاملات پہلے ہی سامنے آچکے ہیں جب اقلیتی نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسا یا گیااور 20-20 سال جیل میں رہنے کے بعد عدالتوں سے بری ہوئے۔
لوک سبھا میں مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہواموترا نے کہا کہ ”یہ ترمیمی بل عوام مخالف اور بہت ہی خطرناک ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کو واپس لیاجائے“۔ لوک سبھا میں بی ایس پی کے لیڈر کنوردانش علی نے سوال کیاکہ یہ کیسا قانون ہے کہ محض شک کی بنیادپر بے گناہوں کو طویل مدت تک جیل میں رکھا جاسکتاہے۔ انہوں نے پوچھا کہ بے گناہ ثابت ہونے اور جیل سے رہا ہونے پر مذکورہ بے قصوروں کو حکومت کوئی معاوضہ دے گی؟ بل واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کے غلط استعمال کا اندیشہ ظاہر کیا۔